بھارت کا قومی پرچم تین مختلف رنگوں کے افقی مستطیل خانوں پر مشتمل ہے، جو زعفرانی، سفید اور سبز رنگوں کے ہیں۔ اسپرچم کے درمیان میں نیلے رنگ کا اشوک چکر ہے جو درمیان کی سفید پٹی پر نظر آتا ہے۔ اس پرچم کو ڈومنین بھارت کے اجلاس مورخہ 22 جولائی، 1947ء کے موقع پر اختیار کیا گیا، اور بعد ازاں جمہوریہ بھارت کے قومی پرچم کے طور پر اسے برقرار رکھا گیا۔ بھارت میں لفظ ترنگا (ہندی: तिरंगा) سے مراد ہمیشہ اسی پرچم کو لیا جاتا ہے۔ یہ پرچم سوراج کے جھنڈے سے مشابہت رکھتا ہے جو انڈین نیشنل کانگریس کا جھنڈا تھا اور اس کے خالق پینگالی ونکایا تھے

مہاتما گاندھی کی خواہش کو دیکھتے ہوئے قانونی طور پر اس جھنڈے کو کھادی(ہاتھوں سے بُنا گیا کپڑا) اور ریشم کے کپڑوں سے بنایا جاتا ہے۔ اس جھنڈے کو بنانے کے مراحل کی نگرانی بیورو آف انڈین سٹینڈرڈ کرتا ہے۔ اسے بنانے کے حقوق کھادی ڈیولپمنٹ اینڈ لیج انڈسٹریز کمیشن مختلف علاقوں کو جاری کرتا ہے۔ سنہ 2009ء تک کرناٹک کھادی گرام ادیوگ سنیوکتا سنگھ ہی اس جھنڈے کو بنانے والی واحد کمپنی تھی۔

بھارتی قانون کے مطابق اس پرچم کے استعمال کے قواعد مقرر ہیں جو دیگر قومی علامات پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق عام شہری اسے صرف قومی دن جیسے یوم آزادی اور یوم جمہوریہ وغیرہ پر لہرا سکتے ہیں۔ سنہ 2002ء میں ایک شہری ناوین جندل کی درخواست پر بھارتی عدالت عظمی نے حکومت بھارت کو حکم دیا کہ وہ عام شہریوں کو پرچم کے استعمال میں رعایت دیں۔ اس پر یونین کیبنٹ نے شہریوں کو بعض حدود میں اسے استعمال کرنے کی رعایت فراہم کی۔ 2005ء میں قانون میں ترمیم کرتے ہوئے اس پرچم کو کچھ خاص قسم کے کپڑوں سے تیار کرنے کی اجازت دی گئی۔ فلیگ کوڈ اس قومی پرچم کے لہرانے اور خصوصاً دیگر قومی اور غیر قومی پرچموں کے ساتھ اسے لہرانے کے اصول و ضوابط بیان کرتا ہے۔

بھارت کے ضابطۂ پرچم کی رو سے بھارتی پرچم 2/3 کا تناسب رکھتا ہے (جس سے پرچم کی لمبائی چوڑائی سے 1.5 گنا زیادہ ہے)۔ سبھی رنگ کی پٹیاں (زعفرانی، سفید اور سبز) لمبائی اور چوڑائی میں مساوی ہونا چاہیے۔ اشوک چکر کا ناپ ضابطۂ پرچم میں مذکور نہیں ہے، تاہم اس چوبیس خانے ہیں جن کے درمیان میں جگہ مساوی حد تک پھیلی ہوئی ہے۔ [4] "IS1: Manufacturing standards for the Indian Flag" (اًئی ایس 1: بھارتی پرچم کی تیاری کے معیارات) کی شِق 4.3.1 میں ایک چارٹ موجود ہے جس میں اشوک چکر کے ناپ کو قومی پرچم کے نو مختلف ناپوں کے تحت بیان کیا گیا ہے۔[2]ضابطہ پرچم اور اًئی ایس 1 دونوں کے مطابق اشوک چکر کو پرچم کی دونوں جانب گہرے نیلے رنگ میں ہونا چاہیے۔[4][2]

ذیل میں قومی پرچم میں شامل سبھی رنگوں کی گہرائی بتائی گئی ہے، سوائے نیلے گہرے رنگ کے جو "اًئی ایس 1: بھارتی پرچم کی تیاری کے معیارات" سے ماخوذ ہے جیساکہ 1931ء سی آئی ای رنگوں کی تفصیلات میں مستعمل ہے۔ [2] گہرے نیلے رنگ کو معیار:1803-1973 کے تحت دیکھا جا سکتا ہے۔

گاندھی نے پرچم کی تجویز کانگریس کے 1921ء والی اجلاس میں پیش کی تھی۔ اس پرچم کو آندھرا پردیس کے پنگلی ونکیا نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس پرچم کے وسط میں روایتی گھومتا پہیا تھا جو بھارت کو خود کپڑے بنا کر خومختار بنانے کی گاندھی کی سوچ کو ظاہر کرتا تھا۔اسکے بعد جھنڈے کے درمیان یعنی پہیا کے پس منظر میں سفید پٹی رکھی گئی جو اقلیتوں کو ظاہر کرتی تھی۔بعد میں فرقہ وارانہ تعلق کو ختم کرنے کے لیے زعفرانی ،سفید اور سبز پٹی رکھی گئی جو ہمت، قربانی ،سچائی،ایمان اچھائی کو ظاہر کرتی تھی۔[5]

بھارتی آزادی سے کچھ دن قبل قانون ساز اسمبلی نے فیصلہ کیا کہ بھارتی پرچم کو اس طرز پر بنایا جائے کہ تمام فریقین کو قابل قبول ہو[6]۔لہذا سواراج جماعت کے پرچم کو چنا گیا جس میں تمام پرانی چیزیں رکھی گئی ماسوائے چکرا کہ جسےاشوک چکر سے بدلا گیا جو ابدی قانون کی علامت ہے۔بھارتی فلسفی سروپلی رادھاکرشن جو بعد میں بھارت کے سب سے پہلے نائب صدر اور پھر دوسرے وزیر اعظم بنے نے پرچم کی تعریف یوں کی۔

”بھگوا یا زعفرانی رنگ غیر تعلقی یا غیر دلچسپی کی علامت ہے۔ہمارے رہنماؤں ذاتی نفع نقصان کو دیکھے بغیر کام کرنا چاہئے۔درمیان میں کا سفید رنگ روشنی ہے جو ہمیں ہمارے کام میں رہنمائی دیتا ہے۔سبز ہمیں ہمارے اور زمین کے تعلق کا بتاتی ہے جہاں ہم رہتے ہیں اور جس پر تمام جاندار منحصر ہیں۔درمیان میں کا اشوک چکر دھرما کے قانون کا بتاتی ہے۔ سچائی ،ستیا، دھرما یا فضیلت ان اشخاص کو سنبھالنے والے اصولوں کی جو اس علم تلے کام کرتے ہیں۔پھر پہیا حرکت کو ظاہر کرتی ہے۔ساکن ہونے میں موت ہے۔اور حرکت میں زندگی ہے۔بھارت کو ارتقاء کی مزاحمت نہیں کرنی چاہئے بلکہ اسے آگے بڑھتے رہنا ہے۔پہیا پرامن تبدیلی کی جہتوں کو ظاہر کرتی ہے
بھاتی پرچم کی تیاری اور ڈیزائن کے مراحل کو احاطہ کرنے کے لئے تین دستاویز بیورو آف انڈین سٹینڈرڈ نے جاری کر رکھے ہیں۔اسکے مطابق تمام جھنڈے کھادی،ریشم یا کاٹن سے تیار کئے جانے چاہئے۔یہ معیارات 1968 میں تخلیق کئے گئے جبکہ سنہ 2008 میں انکی تجدید ہوئی۔[27] قانون کے مطابق پرچم کے نو معیاری سائز ہیں۔۔[1]




1951 میں انڈیا کے جمہوریہ بننے کے بعد بی آئی ایس نے پہلی دفعہ سرکاری طور پر جھنڈے کے معیارات متعارف کروائے۔پھر 1964 میں ان میں ترامیم کی گئی جسکی وجہعالمی نظام اکائیات سے جھنڈے کے ناپ تول کو ہم آہنگ کرنا تھا اور بھارت نے ان دنوں یہ نظام نیا نیا اپنایا تھا۔17 اگست 1968 کو یہ معیارات مزید قبول کرلی گئیں۔[4] یہ تمام معیارات بھارتی پرچم کے سائز،رنگ،چمک ،دھاگوں اور رسیوں کا احاطہ کرتے تھے۔ان معیارات کا تحفظ بھارتی قانون کرتا ہے اور ان پر عمل نا کرنے کی صورت میں سزا کے طور پر جرمانہ یا قید ہوسکتی ہے۔[28][29]

کھادی یا ہاتھ سے بننے ہوئے کپڑے کو ہی پرچم کے بنانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ اس کے علاوہ کسی دیگر طریقے سے بنا پرچم کا کپڑا قانون کے مطابق ناقابل استعمال ہے جس پر تین سال قید مع جرمانا ہو سکتا ہے۔کھادی کے لئے کاٹن ،ریشم اور اوون کی قید ہے۔کڈی دو قسم کی ہوتی ہے ایک جو پورے پرچم پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ ایک وہ حصہ جو کھمبے کے ساتھ پرچم کے حصہ پر ہوتی ہے یہ حصہ رنگین ہوتی ہے۔کڈھی کے کپڑے کو تین دھاگوں کو ایک ساتھ بن کر بنایا جاتا ہے جبکہ عام طور پر اس میں دو دھاگے استعمال ہوتے ہیں۔بننے کا یہ طریقہ نہایت کم ہی دیکھا جاتا ہے اور پورے بھارت میں 20 سے بھی کم ایسے ادارے ہیں جو یہ ہنر سیکھاتے ہیں۔ہدایات کے مطابق یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ایک سکوائر سینٹی میٹر میں 150 دھاگے استعمال ہونے چاہئیں جبکہ ایک سکوائر فٹ کا وزن 205 گرام ہونا چاہئے۔

یہ بننے ہوئے کھادی شمالی کرناٹکہ کے اضلاعدھرواڈ اور بگل کوٹ کے دو دستکاری مراکز سے مہیا کئے جاتے ہیں۔فی الحال کرناٹکا گرمیودگا سمیوکتا سنگھا جو ہوبلی میں قائم ہے ہی سرکاری اجازت کے مطابق پورے بھارت میں جھنڈوں کی تیاری اور ترسیل کا کام کرتی ہے۔ان ادروں کو جھنڈے بنانے کے حقوق کھادی ڈویلپمنٹ اور ولیج انڈسٹریز کمیشن جاری کرتے ہیں اگرچہ بی آئی ایس کے پاس قائدے سے ہٹ کر کام کرنے والوں کے حقوق کی تنسیخ کا اختیار ہے۔ابتداء میں قومی جھنڈے کے ہاتھ سے بننے کےکام کا آغاز دھرواد ضلع کے ایک چھوٹے گاوں گراگمیں ہوا۔ایک مرکز آزادی کے لئے لڑنے والوں نے 1954 میں دھرواد تلوک کشتریا سیوا سنگھ کے نام سے کھولا تھا اسی مرکز نے ہی پھر جھنڈے بنانے کا اجازت نامہ حاصل کیا۔

جھنڈے کو بننے کے بعد بی آئی ایس کے ہاں بھیجا جاتا ہے جو معیار کی جانچ کرتی ہے۔مواد کی جانچ کے بعد منظوری کی صورت میں اسے دوبارہ فیکٹری میں بھیجا جاتا ہے۔اسکے بعد اسے زعفرانی ،سفید اور سبز رنگ دیے جاتے ہیں۔اشوک کے چکرا کو پرنٹ یا سوئ دھاگے سے سفید حصے پر چھاپا جاتا ہے۔اس بات کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے کہ آیا یہ نشان دونوں جانب بھی نظر آتے ہیں یا نہیں اور کیا یہ دونوں حصوں سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔اسکے بعد جھنڈوں کے تینوں حصوں کو سیا جاتا ہے اس کے یہ مواد استری کے لئے بھیجی جاتی ہے اور پھر اسکی پیکجنگ ہوتی ہے ۔بی آئی ایس اس کے بعد رنگوں کا دیکھتی اور اس کے بعد ہی جھنڈے کو بیچا جاسکتا ہے۔